۔ زمین کی کششِ ثقل Earth’s Gravity

 

۔ زمین کی کششِ ثقل Earth's Gravity

#عجائبات_کائنات

۔ زمین کی کششِ ثقل (Earth’s Gravity)

زمین پر موجود تمام مادی اشیاء زمین کے مرکز کی طرف ہی کیوں گرتی ہیں؟ مثلاً ہم بہت زیادہ اونچائی سے چھلانگ لگا کر بھی نیچے کی طرف ہی آتے ہیں۔ نیچے سے جمپ لگا کر دس فٹ کی اونچائی تک بھی نہیں پہنچ سکتے۔ ایسا کیوں ہے؟ وزن کی وجہ سے؟ (بالکل تاہم وزن کی وضاحت سمجھنا ضروری ہے)

 وزن کیا ہے؟ زمین ہر چیز کو اپنے مرکز کی طرف کھینچتی ہے۔ میں، آپ اور زمین پر موجود تمام مادی اشیاء زمین کی اسی کششِ ثقل کی وجہ سے اِستحکام میں ہیں۔ اگر زمین کی اس کشش کو ختم کر دیا جائے تو زمین پر موجود ماؤنٹ ایورسٹ پہاڑ کا اور آپ کا وزن ایک برابر یعنی صفر ہو جائے گا۔ وزن بذاتِ خود کوئی چیز نہیں ہے، یہ زمین کی ثقلی قوت کے سبب پیدا ہونے والا کِھچاؤ ہے، جسے ہم وزن کہتے ہیں۔ جس چیز کے پاس جتنی زیادہ کمیت (mass) ہو گی، زمین کی کششِ ثقل اسی حساب سے اس چیز پر اثر انداز ہو گی۔ کششِ ثقل کیا ہے؟ ہمیں ہر ہر پل اپنے ہونے کا احساس دلاتی مگر نظروں سے اوجھل یہ کششِ ثقل فطرت کے رازوں میں سے ایک راز ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

• مادہ (matter) چار بنیادی اقسام پر مشتمل ہے، وہ چار اقسام ٹھوس مائع گیس اور پلازمہ ہیں۔ مادہ مختلف قسم کے ایٹمز (atoms) کا مرکب ہے۔

• کسی بھی چیز کے اندر مادے (matter) کی مقدار اس چیز کی کمیت (mass) کہلاتی ہے۔

• کسی بھی چیز کا حُجم (volume) کہلاتا ہے۔ جیسا کہ آپ ایک ایسا رقبہ لیں، جس کی لمبائی چوڑائی اور گہرائی ایک کلومیٹر ہو تو اسے ایک کیوبک کلومیٹر کہا جائے گا۔ زمین کا حُجم 1,083,206,916,846 کیوبک کلومیٹر ہے (سورج کا حُجم 13 لاکھ زمینوں کے برابر ہے)

• کثافت (density) گاڑھے پَن یا گَھنے پَن کو کہتے ہیں۔ کسی بھی مادی چیز کے حجم (volium) پر اس چیز کے کُل مادے کو تقسیم کر کے یہ معلوم کرنا کہ اس چیز میں مادے کی مقدار کتنی کثیف (گاڑھی یا گھنی) ہے۔ مثال کے طور پر یہ معلوم کرنا کہ زمین کا کُل حجم اور مادہ کتنا ہے اور زمین کے ایک کیوبک کلومیٹر/کیوبک میٹر یا کیوبک سینٹی میٹر میں زمین کے کُل مادے میں سے کتنا مادہ سمائے ہوئے ہے۔

• کششِ ثقل (gravity) اُس قوت کو کہتے ہیں کہ جو کوئی بھی مادی جسم کسی دوسرے مادی جسم کو اپنی طرف کھینچتے وقت لگاتا ہے۔ جیسا کہ “زمین کی کششِ ثقل 9.81 میٹر فی سیکنڈ ہے۔ زمین کی طرف آزادانہ طور پہ گرائے جانے والی چیز ہر گزرتے سیکنڈ کے ساتھ اپنی رفتار کو 9.81 میٹر فی سیکنڈ کے حساب سے بڑھاتی چلی جاتی ہے۔ یعنی اگر آپ اونچائی سے ایک گیند نیچے پھینکتے ہیں، پہلے سیکنڈ میں اس گیند کے گرنے کی رفتار 9.81 میٹر فی سیکنڈ ہو گی۔ دوسرے سیکنڈ میں اس گیند کے گرنے کی رفتار 19.62 میٹر فی سیکنڈ ہو گی اور تیسرے سیکنڈ میں اس گیند کے گرنے کی رفتار 29.43 میٹر فی سیکنڈ ہو گی۔ گرائے جانے والی گیند جوں جوں زمین کے نزدیک آتی چلی جائے گی، اس کی رفتار میں (سینٹر آف گریوٹی سے فاصلہ کم ہونے کی بنا پر) 9.81 میٹر فی سیکنڈ کے حساب سے اضافہ ہوتا چلا جائے گا”

زیادہ مادے کا حامل جسم کششِ ثقل بھی زیادہ رکھتا ہے، جیسا کہ ہمارا سورج۔ سورج کی کششِ ثقل زمین کی کشش ثقل سے 28 گُنا زیادہ ہے۔ سورج پر آزادانہ طور پہ گرنے والی چیز کے گرنے کی رفتار 274 میٹر فی سیکنڈ کے حساب سے بڑھے گی۔ کسی بھی مادی جسم کی کششِ ثقل جتنی زیادہ ہو گی اس سے فرار حاصل کرنا اسی قدر مشکل ہو گا۔ زمین کی کششِ ثقل سے آزاد ہونے کے لیے 11.2 کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار چاہیے ہو گی۔ اسے گریزی رفتار یا escape velocity کہتے ہیں۔ زمین سے خلا کو جانے والا خلائی جہاز 11.2 کلومیٹر فی سکینڈ کی رفتار حاصل کیے بغیر زمین کی کششِ ثقل سے آزاد نہیں ہو سکتا۔

کسی بھی مادی چیز کے حُجم کو چھوٹا کر کے اور اس کی کثافت کو بڑھا کر اس جسم کی کشش ثقل بڑھائی جا سکتی ہے۔ اس کی وجہ اوبجیکٹ کا کششِ ثقل کے مرکز (center of gravity) سے فاصلے کا کم ہو جانا ہے۔

“زمین کا قُطر (diameter) 12742 کلومیٹر ہے۔ اگر زمین کے تمام mass کو اتنا کثیف کر دیا جائے کہ زمین کا تمام mass اٹھارہ 18 ملی میٹر قُطر میں سما جائے تو زمین سے فرار حاصل کرنے کے لیے کسی بھی جسم کو روشنی جتنی رفتار حاصل کرنا ہو گی اور اگر زمین کی کمیت (mass) کو 18 ملی میٹر سے بھی چھوٹے قُطر میں قید کیا جائے تو پھر زمین سے بھی روشنی باہر نہیں جا سکے گی۔ بلیک ہول میں بھی یہی کچھ ہوتا ہے۔ اس کی کمیت اس قدر کثیف ہو جاتی ہے کہ اس کی کششِ ثقل بے انتہاء بڑھ جاتی ہے، جس کے نتیجے میں بلیک ہول کی escape velocity (گریزی رفتار) بھی بڑھتی ہے۔ یعنی بلیک ہول سے فرار حاصل کرنے کے لیے روشنی سے بھی زیادہ رفتارچاہیے ہوتی ہے” (البرٹ آنسٹائن کی مساوات کے مطابق کوئی بھی مادی چیز روشنی کی رفتار سے سفر نہیں کر سکتی)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کششِ ثقل کو جانے ہمیں کچھ زیادہ عرصہ نہیں بیتا ہے۔ کششِ ثقل کے متعلق بہت سے نظریات موجود ہیں، جنہیں ماضی میں سائنسدان وقتاً فوقتاً پیش کرتے آئے ہیں۔ ان نظریات میں سے برطانوی سائنسدان آئزک نیوٹن کا نظریہ Law of universal gravitation (کائناتی تجاذب کا قانون) اور جرمن سائنسدان البرٹ آئنسٹائن کا نظریہ General theory of relativity (نظریہ عمومی اضافیت) مشہور زمانہ نظریات میں سے ایک ہیں۔ سترھویں صدی (1666) میں آئزک نیوٹن نے سب سے پہلے اس بات پہ غور کیا کہ سب چیزیں زمین کے مرکز ہی کی طرف کیوں گرتی ہیں؟ بعد میں آئزک نیوٹن نے اس پر مزید کام کر کے اپنی اس سوچ کو law of universal gravitation کے نام سے متعارف کروایا۔ “کششِ ثقل ہے” یہ ہمیں آئزک نیوٹن نے بتایا۔ کششِ ثقل کیسے اور کس وجہ سے ہے؟ یہ بات ہمیں ڈھائی صدیاں بعد البرٹ آئنسٹائن سے پتا چلی۔

نومبر 1915 میں البرٹ آئنسٹائن نے general theory of relativity یعنی نظریہ اضافیت دنیا کے سامنے رکھا۔ سن 1916 میں یہ نظریہ ایک جرمن سائنسی جریدے (Annalen der physik) میں شائع ہو گیا۔ اس نظریے میں البرٹ آئنسٹائن نے بتایا کہ

• کائنات وقت اور جگہ یعنی زمان و مکان (time and space) سے مل کر بنا ہوا ایک “کپڑا سا” ہے۔

• اس کائناتی کپڑے یا فیبرک پر جب کوئی ایسی چیز رکھی جائے گی جو کہ مادے سے بنی ہے تو اس کپڑے میں اس جگہ خَم یا گہرائی پیدا ہو گی۔

• زمان و مکان سے بنی یہ کائناتی چادر اپنی حالت پر مستقل یا جامد نہیں ہے بلکہ مادے کی وجہ سے اس میں نرمی/خَم پیدا ہوتا ہے۔ یعنی مادی اجسام زمان اور مکان (time and space) پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔ مادی جسم کی وجہ سے کائناتی مکاں (space) میں خَم پیدا ہو گا اور کائناتی زماں (time) بھی اپنی سِمت تبدیل کرے گا۔

• مادی جسم جس قدر زیادہ کمیت (mass) و کثافت کا حامل ہو گا، وقت اسی قدر اس کے پاس دھیما ہو جائے گا۔ یہاں تک کہ بے انتہاء کثافت کا حامل مادی جسم وقت کو رُکنے پر بھی مجبور کر سکتا ہے (اس کی مثال بلیک ہول ہے۔ پہلی بار بلیک ہول آئنسٹائن کے گزر جانے کے بعد 1971 میں دریافت ہوا اور آئنسٹائن کی یہ بات بھی سچ ثابت ہوئی)

• اس کائناتی چادر میں جس قدر بھاری جسم رکھا جائے گا، اس چادر میں اس جگہ اسی قدر زیادہ خَم پیدا ہو گا۔ اسی خَم کی وجہ سے اس مادی چیز کے ارد گرد (اس خَم زدہ علاقے میں) موجود دوسرے مادی اجسام اس خَم کی طرف گریں گے۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ البرٹ آئنسٹائن کا یہ نظریہ مزید نِکھرتا جا رہا ہے۔ البرٹ آئنسٹائن کے اس نظریے کو جدید فزکس کے ستونوں میں سے ایک اہم ستون مانا جاتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کششِ ثقل مزید وضاحت کے ساتھ :

گریوٹی یا کششِ ثقل کیا ہے؟ کائنات میں ثابت شدہ چار جَہتیں (ڈائمنشنز) ہیں۔ “1 آگے پیچھے، 2 دائیں بائیں اور 3 اوپر نیچے” یہ تین جَہتیں ہیں۔ چوتھی جَہت وقت (time) ہے۔ کائنات خلا (space) اور وقت (time) پر مبنی ایک بِچھی ہوئی لچکدار فلیٹ چادر (fabric) کی مانند ہے۔ جسے “سپیس-ٹائم فیبرک یا Spacetime” جیسے آسان لفظ سے واضح کیا جاتا ہے۔ سپیس اور ٹائم کے اشتراک سے بنے اس فیبرک میں جگہ جگہ کمیت کے حامل اجسام (کہکشائیں، بلیک ہولز، ستارے، سیارے اور سحابیے وغیرہ) موجود ہیں۔ خلا میں جہاں کہیں بھی کمیت (mass) کا حامل کوئی بھی مادّی جسم موجود ہو گا وہاں خلا اور وقت کے اس لچکدار کپڑے میں خَم (curve) آ جائے گا۔ مادی اجسام سے سپیس-ٹائم فیبرک میں پڑا یہ جو خَم ہے، اسی کو ہم گریوٹی یا کششِ ثقل کہتے ہیں۔

کائنات میں جہاں کہیں بھی کوئی مادی جسم (سیارہ، ستارہ یا بلیک ہول وغیرہ) ہو گا وہاں خلا اور وقت میں ایک گڑھا یا خَم نمُودار ہو جائے گا۔ وہ مادی جسم اس خَم زدہ جگہ میں دھنسے گا۔ اس مادی جسم کی کمیت جس قدر زیادہ ہو گی، وہ خَم زدہ خلائی جگہ اسی قدر زیادہ خَم دار ہو گی۔ اب یہ مادی جسم اپنے حجم اور وجود کو اس خَم زدہ جگہ کے مطابق ڈھالنے کے لیے گول ہو جائے گا۔ اگر مادی جسم بہت زیادہ کمیت رکھتا ہے تو اس سے سپیس-ٹائم فیبرک زیادہ خَم ہو جانے کی وجہ سے یہ مادی جسم گول ہونے کے ساتھ ساتھ کثیف سے کثیف تر بھی ہوتا چلا جائے گا (جیسا کہ بلیک ہول) اس مادّی جسم نے سپیس-ٹائم فیبرک میں جو گڑھا یا خَم (curve) پیدا کیا ہے، اس خَم کی وجہ سے اس کے آس پاس موجود دوسرے چھوٹے فلکیاتی اجسام اس خَم زدہ جگہ کا چکر لگانے لگ جائیں گے (بچپن میں بَنٹّے یا قینچے کھیلنے کا تجربہ رکھنے والے حضرات جانتے ہیں کہ جب بنٹے کو مٹی میں بنائے گئے خاص گڑھے “جسے بُتّی/پِلی بھی کہا جاتا ہے” میں ڈالنے کے لیے دھکیلا یا پھینکا جاتا تھا تو کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا تھا کہ وہ بَنٹّا بُتّی میں جانے سے پہلے اس بُتّی کے ارد گرد خَم زدہ جگہ کے دو چار چکر بھی لگا لیا کرتا تھا۔ کچھ اسی طرح کی کیفیت سپیس-ٹائم میں آئے خَم کی بھی ہے۔ سیارے اور چاند وغیرہ اسی طرح ستاروں کے ڈالے گئے خَم میں چکر لگا رہے ہیں)

مثلًا سپیس-ٹائم فیبرک میں جس جگہ سورج موجود ہے وہاں سورج کی کمیت کے لحاظ سے نظام شمسی کا سب سے بڑا خَم زدہ خلائی حصہ موجود ہے۔ کیوں؟ کیوں کہ سورج کی کمیت پورے نظام شمسی میں سب سے زیادہ ہے۔ سورج کی کمیت نے سپیس-ٹائم فیبرک میں جو خَم ڈالا ہے اس خَم کا اثر نظام شمسی کی آخری حدود تک موجود ہے۔ اسی لیے تمام سیارے اور دوسرے فلکیاتی اجسام سورج کے گرد گھوم رہے ہیں۔ جہاں جہاں سیارے موجود ہیں وہاں وہاں سورج کی نسبت سپیس-ٹائم فیبرک میں چھوٹی خَم زدہ جگہیں موجود ہیں۔ کیوں کہ سیاروں کی کمیت سورج کے مقابلے انتہائی کم ہے۔ سیاروں کے ان خَم زدہ علاقوں کی وجہ سے سیاروں کے گرد ان کے چاند چکر لگا رہے ہیں۔ سورج کے گرد گھوم رہے سیارے یا سیاروں کے گرد گھوم رہے ان کے چاند، گھومتے گھومتے ان خَم زدہ گڑھوں میں (بَنٹّے کی طرح) گِر کیوں نہیں جاتے؟ اس کی وجہ ان تمام اجسام کی مستقل بنیادوں پر جاری مداروی رفتار (orbital speed) ہے۔

مختصرًا یہ کہ کمیت کی مقدار میں کمی یا بیشی سپیس-ٹائم فیبرک میں آئے اس خَم کی کمی/زیادتی کا باعث ہو گی۔ مثلاََ کسی چھوٹے ستارے کے آس پاس کا علاقہ کم خَم زدہ ہو گا بنسبت کسی بلیک ہول کے آس پاس والے علاقے کے، کیوں کہ بلیک ہول میں کمیت کی مقدار عام ستارے کی کمیت کی مقدار سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ مادی اجسام کی وجہ سے کائناتی چادر میں جو خَم پڑتا ہے اسی خَم کو کششِ ثقل کہا جاتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زمین پر موجود تمام چیزیں بھی زمین کو اپنی طرف کھینچتی ہیں کیوں کہ مادے سے بنی ہر چیز ثقلی میدان پیدا کرتی ہے، یہاں تک کہ ایک انسان بھی اپنی کششِ ثقل سے زمین کو اپنی طرف کھینچتا ہے لیکن زمین کے مقابلے میں زمین پر موجود کسی بھی چیز یا انسان کی کمیت (mass) اتنی نہیں کہ وہ زمین کی کشش ثقل سے زیادہ کششِ ثقل پیدا کر سکے۔ نتجتاً زمین کی کششِ ثقل زمین پر موجود تمام مادی اشیاء کو اپنے مرکز کی طرف کھینچے ہوئے ہے۔ زمین کی یہی کششِ ثقل چاند کو اُس کے مدار پر روکے ہوئے ہے (چاند کی مداروی حرکت اسے زمین کے ساتھ ٹکرانے نہیں دیتی) چاند کی کششِ ثقل سے زمین کے سمندر دن میں دو بار طغیانی کا شکار ہوتے ہیں۔ سمندر کا جو حصہ چاند سے قریب ہوتا ہے، اس حصے میں چاند کی کششِ ثقل کی وجہ سے اونچی اونچی لہریں اٹھتی ہیں، چاند کی کشش ثقل سے پیدا ہوئی اس قوت کو tidel force کہا جاتا ہے۔

کائنات میں موجود ہر مادی چیز خود سے چھوٹی مادی چیز پر کششِ ثقل کی بنا پر حاوی ہے۔ چاند سیاروں کے گرد گھوم رہے ہیں، سیارے ستاروں کے گرد چکر لگاتے ہیں۔ زیادہ تر ستارے جُھرمٹوں کی صورت میں ایک دوسرے کی کششِ ثقل سے بندھے ہوئے رہتے ہیں۔ اربوں ستاروں سے مل کر بنی کہکشائیں کششِ ثقل ہی کی بدولت تمام ستاروں کو جمع رکھتی ہیں۔ کہکشائیں بھی اکیلی اکیلی نہیں ہیں بلکہ ایک دوسرے کی کششِ ثقل کی وجہ سے جُھنڈ کی صورت میں موجود ہوتی ہیں (سائنسدانوں نے کہکشاؤں کے ان جُھنڈوں کو مختلف گروپس میں تقسیم کر رکھا ہے)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کششِ ثقل فقط ہمیں ہی متاثر کرتی ہے؟ ایسا نہیں ہے بلکہ کششِ ثقل روشنی، وقت اور آواز پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ روشنی کی انرجی کو تبدیل کرنا یا روشنی کو موڑنا، وقت کو سپیس ٹائم میں curve پیدا کر کے سست کرنا اور آواز کی لہروں کے طرزِ عمل کو بدلنا کشش ثقل ہی کی شرارتیں ہیں۔ جو بھی ہے، کششِ ثقل فطرت کا ایک عظیم شاہکار ہے۔ اسی کی بدولت ہمارے مصنوعی سیارچے (Satellites) زمین کے گرد اپنے اپنے مدار پر قائم ہیں۔ انہی مصنوعی مواصلاتی سیارچوں ہی کی وجہ سے ہم انٹرنیٹ، موبائل فون اور ان جیسی بہت سی اہم سہولیات سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

کششِ ثقل نظر نہیں آتی مگر اسے محسوس ہر ہر قدم پر کیا جا سکتا ہے۔

https://www.facebook.com/groups/FalkiyatiDuniya/?ref=share

تحریر : محمد یاسر لاہوری

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *